فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں (١) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، (٢) تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا (٣)
1- یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کےتمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔ 2- یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کےپھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف وعظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔ 3- یہ سجدۂ تحیہ یا سجدۂ تعظیم ہے، سجدۂ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (عليہ السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا ”اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے“۔ (مشكاة كتاب النكاح، باب عشرة النساء ، بحوالہ ترمذی وقال الألباني، وهو حديث صحيح لشواهده)۔