وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
اور وہ لوگ جو اس طرح چلائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے (١) (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی (٢) جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا (٣) سو مزہ چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
1- یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔ 2- اس سے مراد کتنی عمر ہے؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں۔ بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ (ابن کثیر) لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں، اس لئے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں، کوئی جوانی میں، کوئی کہولت میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے، پھر یہ ادوار بھی لمحۂ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، بلکہ ہر دور خاصا ممتد (لمبا) ہوتا ہے۔ مثلاً جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ کسی کو سوچ بچار، نصیحت خیزی اور اثر پذیری کے لئے چند سال، کسی کو اس سے زیادہ اور کسی کو اس سے بھی زیادہ سال ملتے ہیں اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا، پھر تونے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ 3- اس سے مراد نبی کریم (ﷺ) ہیں۔ یعنی یاددہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (ﷺ) اور اس کے منبر ومحراب کے وارث علما اور دعاۃ تیرے پاس آئے، لیکن تونے اپنی عقل وفہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔