سورة سبأ - آیت 50

قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کہہ دیجئے کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے (کا وبال) مجھ پر ہے اور اگر میں راہ ہدایت پر ہوں توبہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا (١) ہے وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے (٢)۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا ہے، اس میں رشد وہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اسی سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) جب کسی سائل کے جواب میں اپنی طرف سے کچھ بیان فرماتے تو ساتھ کہتے (أَقُولُ فِيهَا بِرَأْيي، فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللهِ ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ، وَاللهُ وَرَسُولُهُ بَرِيئَانِ مِنْهُ) (ابن كثير)۔ ** جس طرح حدیث میں فرمایا [ إِنَّكُمْ لا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلا غَائِبًا ، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا مُجِيبًا ] (بخاری كتاب الدعاء ، باب الدعاء إذا علا عقبة)” تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے“۔