سورة الأحزاب - آیت 57

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے (١)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اللہ کا ایذا دینے کا مطلب ان افعال کا ارتکاب ہے جسے وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ورنہ اللہ کو ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الجاثية ومسلم، كتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا، یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ افعال اللہ کے ہیں، زمانے یا فلک کے نہیں۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کو ایذا پہنچانا، آپ (ﷺ) کی تکذیب، آپ (ﷺ) کو شاعر، کذاب، ساحر وغیرہ کہنا ہے۔ علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ (ﷺ) نے ایذا قرار دیا ہے۔ لعنت کا مطلب، اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔