إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو (١)۔
1- اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو ملأ اعلیٰ (آسمانوں) میں آپ (ﷺ) کو حاصل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں میں آپ (ﷺ) کی ثناو تعریف کرتا اور آپ (ﷺ) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (ﷺ) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (ﷺ) پر صلوٰۃ وسلام بھیجیں تاکہ آپ (ﷺ) کی تعریف میں علوی اورسفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آتا ہے، صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں [السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ] پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ (ﷺ) نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نمازمیں پڑھا جاتا ہے۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأحزاب) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں، جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصراً (ﷺ) بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم [ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ] پڑھنا اس لئے صحیح نہیں کہ اس میں نبی کریم (ﷺ) سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں[السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ] چونکہ آپ (ﷺ) سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ (ﷺ) اسے براہ راست سنتے ہیں۔ یہ عقیدہ فاسدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی غیر صحیح ہے۔ اسی طرح اذان سے قبل اسے پڑھنا بھی بدعت ہے، جو ثواب نہیں، گناہ ہے۔ احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور علما اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علما واجب۔ اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے، پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے۔ اس لئے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے دلائل مختصراً حسب ذیل ہیں۔ ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا، یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) پر سلام کس طرح پڑھنا ہے، یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں[ السَّلامُ عَلَيْكَ ]پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ (ﷺ) پر درود کس طرح پڑھیں؟ تو آپ (ﷺ) نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی، ج 4، ص 20۔21) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں، اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا، نبی (ﷺ) نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیئے، اور اس کا مقام تشہد ہے۔ اور حدیث میں یہ عام ہے، اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے۔ اور جن روایات میں تشہد اول کا بغیر درود کے ذکر ہے، انہیں سورۂ احزاب کی آیت﴿صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا﴾ کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اس آیت کے نزول یعنی 5 ہجری کے بعد جب نبی (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرما دیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوٰۃ (درود شریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا، چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے بیان فرمایا کہ نبی (ﷺ) (بعض دفعہ) رات کو 9 رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر (ﷺ) پر درود پڑھتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کرکے تشہد میں بیٹھتےتو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے (السنن الكبرى للبيهقي، ج2 ص704 طبع جديد سنن النسائی، مع التعليقات السلفية، كتاب قيام الليل، ج1 ص202۔ مزید ملاحظہ ہو، صفة صلاة النبي ﷺ للألباني صفحة 145) اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی (ﷺ) نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ (ﷺ) کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے، اس لئے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا۔