مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
(لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں (١) لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو (خوب) جانتا ہے ـ
1- اس لئے وہ زید بن حارثہ (رضی الله عنہ) کے بھی باپ نہیں ہیں، جس پر انہیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کیوں کرلیا؟ ایک زید (رضی الله عنہ) ہی کیا، وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید (رضی الله عنہ) تو حارثہ کے بیٹے تھے، آپ (ﷺ) نے تو انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا، حقیقتاً وہ آپ (ﷺ) کے صلبی بیٹے نہیں تھے۔ اس لئے ﴿ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ ﴾کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ (رضی الله عنہ) ہی کہا جاتا تھا، علاوہ ازیں حضرت خدیجہ (رضی الله عنہا) سے آپ (ﷺ) کے تین بیٹے، قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ (رضی الله عنہا) کے بطن سے ہوا۔ لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (ﷺ) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر)۔ 2- خَاتَمٌ مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ (ﷺ) پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا، آپ (ﷺ) کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا۔ احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے۔ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کا نزول ہوگا، جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے، تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی کریم (ﷺ) کے امتی بن کر آئیں گے، اس لئے ان کا نزول عقیدہ آخرت نبوت کے منافی نہیں ہے۔