وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا
اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا وارث کردیا (١) اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں (٢) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
1- اس میں غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسا کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقض عہد کرکے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ (ﷺ) ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) آگئے اور کہا کہ آپ (ﷺ) نے ہتھیار رکھ دیے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں۔ چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اسی لئے آپ (ﷺ) کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کر دی کہ عصر کی نماز وہاں جا کر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جو کم وبیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ (رضی الله عنہ) کو اپنا حکم (ثالث) تسلیم کر لیا کہ وہ جو فیصلہ بابت دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان سے لڑنے والے لوگوں کو قتل اور بچوں، عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ نبی (ﷺ) نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر االلہ تعالیٰ کا بھی ہے۔ اس کے مطابق ان کے جنگ جو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا۔ (دیکھئے صحیح بخاری، باب غزوۂ خندق) أَنْزَلَ قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظَاهَرُوهُمْ کافروں کی انہوں نے مدد کی۔ 2- بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس وروم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ (فتح القدیر)۔