أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں (١) پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انھیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو (٢) پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں (٣) یہ ایمان لائے ہی نہیں (٤) اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے (٥)۔
1- یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کرلڑنے میں بخیل ہیں۔ 2- یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔ 3- یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی بابت ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ برا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں۔ 4- یادوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کےاندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔ 5- یعنی دل سے، بلکہ یہ منافق ہیں، کیوں کہ ان کے دل کفر وعناد سے بھرے ہوئے ہیں۔ 6- اس لئے کہ وہ مشرک اور کافر ہیں اور کافر ومشرک کے اعمال باطل ہیں، جن پر کوئی اجر وثواب نہیں۔ یا أَحْبَطَ أَظْهَرَ کے معنی میں ہے، یعنی ان کے عملوں کے بطلان کو ظاہر کر دیا، اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے ہیں ہی نہیں کہ وہ ثواب کے مقتضی ہوں اور اللہ ان کو باطل کر دے۔ (فتح القدیر)۔ 7- ان کے اعمال کا برباد کر دینا، یا ان کا نفاق۔