وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں (١) پھر جب وہ (باری تعالیٰ) انھیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں (٢) اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔ (٣)
1- یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی الہٰ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔ 2- بعض نے مُقْتَصِدٌ کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا، ﴿فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ كَاَفِرٌ ﴾پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں (فتح القدیر) دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں اعتدال پر رہنے والا یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی، انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت واطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے، مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں، نہ کہ اعتدال کا۔ (ابن کثیر) مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ 3- خَتَّارٍ غدار کے معنی میں ہے۔ بدعہدی کرنے والا، کفور ناشکری کرنے والا۔