سورة لقمان - آیت 20

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو (یہاں کام سے لگا دیا) سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوق، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشاء استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان وزمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)۔ 2- ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک واحساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔ 3- یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں، کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام وشرائع کے بارے میں۔