ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں (١)
1- خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستےاور ساحلی آبادیاں ہیں۔ فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہےجس سےانسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن وسکون تہ وبالا اور ان کے عیش وآرام میں خلل واقع ہو۔ اس لئے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں، اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی وسماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے۔ جو اللہ کی طرف سے بطور سزا وتنبیہ نازل ہوتی ہیں۔ جیسے قحط، کثرت موت، خوف اور سیلاب وغیرہ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال وکردار کا رخ برائیوں کی طرف پھر جاتا ہےاور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن وسکون ختم اور اس کی جگہ خوف ودہشت، سلب ونہب اور قتل وغارت گری عام ہو جاتی ہے اس کےساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی وسماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہٰ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں، توبہ، کر لیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہوجائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الٰہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن وسکون اور اللہ کی طرف سے خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے زمین میں اللہ کی ایک حد کا قائم کرنا، وہاں کے انسانوں کے لئے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ (النسائی، كتاب قطع يد السارق، باب الترغيب في إقامة الحد - وابن ماجہ) اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار (فاجر) آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔ (صحيح بخاری، كتاب الرقاق، باب سكرات الموت- مسلم، كتاب الجنائز، باب ما جاء في مستريح ومستراح منه)۔