أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا (١) کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا (٢) وہ ان سے بہت زیادہ توانا اور طاقتور تھے (٣) اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور (٤) ان سے زیادہ آباد کی تھی (٥) اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے (٦) یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان (٧) پر ظلم کرتا لیکن (دراصل) وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (٨)۔
1- یہ آثار وکھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور وفکر نہ کرنے پر توبیخ کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔ 2- یعنی ان کافروں کا، جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کیا۔ 3- یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ 4- یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ 5- اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے، پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت وکاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ 6- لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ نتیجتاً تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت وخوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ 7- کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا۔ 8- یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کرکے۔