سورة العنكبوت - آیت 8

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے (١) ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے (٢) تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (الہٰ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے وہی سمجھ سکتا اور انہیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت وخدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور اس کی تربیت وپرداخت، ان کی غایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لیے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید وعبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لیے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی کو رب کی ناراضی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ 2- یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم بھی شامل ہے) اور اس کے لیے خاص کوشش بھی کریں۔ (جیسا کہ مجاہدہ کے لفظ سے واضح ہے) تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ [ لا طَاعَةَ لأَحَدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ] (مسند أحمد5/66 والصحيحة للألباني، نمبر 179) ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں“۔ اس آیت کی شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنہ) ، کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر ان کی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح مسلم، ترمذي، تفسير سورة العنكبوت)