ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ
جا ان کی طرف واپس لوٹ جا، (١) ہم ان (کے مقابلہ) پر وہ لشکر لائیں گے جن کے سامنے پڑنے کی ان میں طاقت نہیں اور ہم انھیں ذلیل و پست کرکے وہاں سے نکال باہر کریں گے (٢)۔
* یہاں صیغۂ واحد سے مخاطب کیا، جب کہ اس سے قبل صیغۂ جمع سے خطاب کیاتھا۔ کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کبھی امیر کو۔ ** حضرت سلیمان (عليہ السلام) نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لیے ان کی طرف سے تو لوگوں کو ذلیل و خوار کیاجانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ وقتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ جنگ نام ہی کشت وخون اور اسیری کا ہے اور ذلت وخواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل وخوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی (ﷺ) کا طرز عمل اور اسوۂ حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔