إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ
میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے (١) جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے (٢)۔
1- یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آج کل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتاہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی؟ حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بعض لوگ ملکہ سبا (بلقیس) کے اس ذکر سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی سربراہی جائز ہے۔ حالانکہ قرآن نے ایک واقعے کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس سے اس کے جواز یا عدم جواز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن وحدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ 2- کہا جاتا ہے کہ اس کا طول 80 ہاتھ عرض 40 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی اور اس میں موتی ، سرخ یاقوت اور سبز زمرد جڑے ہوئےتھے ، واللہ اعلم (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔