إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
سوائے ان کے جو ایمان لائے (١) اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا (٢) جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں (٣)
* اس سے ان شاعروں کو مستثنیٰ فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مومن، عمل صالح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر غلط شاعری، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط وتفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سےعاری ہوں۔ ** یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعراء کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی ہجو (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت (رضی الله عنہ) کافروں کی ہجویہ شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی (ﷺ) ان کو فرماتے کہ ”ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل (عليہ السلام) بھی تمہارے ساتھ ہیں“۔ (صحيح بخاری، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، مسلم، فضائل حسان بن ثابت) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی شاعری جائز ہے جس میں کذب ومبالغہ نہ ہو اور جس کے ذریعے سے مشرکین وکفار اور مبتدعین واہل باطل کو جواب دیا جائے اور مسلک حق اور توحید و سنت کا اثبات کیاجائے۔ *** یعنی أَيَّ مَرْجَع يَرْجِعُونَ یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لیے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ”تم ظلم سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)۔