سورة الشعراء - آیت 166

وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو (١) بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے (٢)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتدا اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لیے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی وہ بدفعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بدفعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب یہ سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد وعورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضا مندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنی کیونکر گناہ اور ناجائز ہوسکتا ہے؟ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔ 2- عَادُونَ، عاد کی جمع ہے۔ عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کی فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام۔ قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے اس حد سے تجاوز کیا۔