إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، (١) ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے (٢) اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
1- اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ اور سورۂ نساء کی آیت 93 میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر محمول ہوگی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کیے ہی فوت ہوگیا ہو۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نےبھی خالص توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ (صحيح مسلم، كتاب التوبة)۔ 2- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرمادیتا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف الہٰ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلےکافروں کےساتھ مل کرمسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ دوسرے معنی ہیں کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ”میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوگا کہ قیامت کےدن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے، بڑے گناہ ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہوگی، علاوہ ازیں اس بات سے بھی ڈر رہا ہوگا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا، تیرے لیے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی یہ مہربانی دیکھ کر وہ کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سےاعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کرکے رسول اللہ (ﷺ) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کے دانت ظاہر ہوگئے“ (صحيح مسلم كتاب الإيمان ، باب أدنى أهل الجنة منزلة فيها)۔