آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے (١) انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
1- اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر ا ہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے اگلی آیت ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ﴾ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وشفقت اور اس کے فضل وکرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا ہے جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ’’جو شخص سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری۔ ابن کثیر) یعنی اس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (ﷺ) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں، ان میں سے ایک سورۂ بقرہ کی یہ آخری دو آیات بھی ہیں۔ (صحیح مسلم، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی) کئی روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ اس سورہ کی آخری آیات آپ (ﷺ) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں (أحمد، نسائي ، طبراني، بيهقي، حاكم دارمي وغيره-در منثور) حضرت معاذ (رضي الله عنه) اس سورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ (ابن کثیر)