وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انھیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ (١) اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا ہے۔
1- حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر (رضی الله عنہ) ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری امر تھا چنانچہ نزول برا کے بعد غصے میں انہوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیقیت، اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کے اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی معافی اور د گزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہ انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) بےساختہ پکار اٹھے، کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے اس کے بعدانہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حسب سابق مسطح کی مالی سرپرستی شروع فرما دی (فتح القدیر، ابن کثیر)