سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا۔ ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے (١)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (24گھنٹے) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، 6گھنٹے (جو 24 گھنٹے کا چوتھائی ہے) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، وَهَلُمَّ جَرًّا اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم وبیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم وتاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرکے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہوگا۔