وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار ہمیں صبر دے ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما (١)
1- جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبروثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح وکامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی (ﷺ) نے نہایت الحاح وزاری سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔