فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
جب حضرت طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر (١) سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا (٢) (حضرت) طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں (٣) لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
* یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ (ابن کثیر) ** اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دوچند، بلکہ صد چند ہو جاتی ہے۔ دوسرے، جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک، پیاس اور دیگر شدائد کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی۔ جس نے پانی پی لیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ ان کی تعداد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ اسی طرح نہ پینے والوں کی تعداد بتلائی گئی ہے، جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ اعلم۔ *** ان اہل ایمان نے بھی، ابتداءً جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا، جس پر ان کے علما اور ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والوں نے کہا کہ کامیابی، تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔