وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے (١) بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
* حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہوں نے اعتراض کیا۔ پیغمبر نے کہا کہ یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں قیادت وسیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت وطاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے۔ وہ واسع الفضل ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت وعنایات سے نوازتا ہے، علیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ہے (معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے تو اس کے لئے انہوں نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے)۔