وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے (١)۔
* تین مواقع انسان کے لئے سخت ودہشت ناک ہو تے ہیں، 1۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، 2۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے،3۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر ”عید میلاد“ کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر ”عید وفات“ یا ”عید ممات“ بھی منانی ضروری ہوئی کیونکہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ ”سلام“ سے عید میلاد کا اثبات ممکن ہے تو پھر اسی لفظ سے عید وفات کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن یہاں وفات کی عید تو کجا، سرے سے وفات وممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی (ﷺ) کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ ( البقرۃ:85) ”کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟“۔