سورة الكهف - آیت 98

قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہا یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا (١) بیشک میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی یہ دیوار اگرچہ بڑی مضبوط بنا دی گئی جس کے اوپر چڑھ کر اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے لیکن جب میرے رب کا وعدہ آ جائے گا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج وماجوج کا ظہور ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلًا ایک حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس دیوار کے تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا (صحیح بخاری، نمبر 3346 و مسلم، نمبر2208) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے باہر نکلنے کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل ان شا اللہ اسکو کھو دیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے حتٰی کے لوگ قلعہ بند ہو جائیں گے، یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے، بالآخر اللہ تعالٰی ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہو جائے گی۔ (مسند أحمد 12/ 511، جامع ترمذی نمبر 3153، والأحاديث الصحيحة للألباني، نمبر1735) صحیح مسلم میں نواس بن سمعان (رضی الله عنہ) کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج وماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔ ( كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب ذكر الدجال) جس سے ان حضرات کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا۔ یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیونکہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل وغارت گری اور شر وفساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔