سورة الكهف - آیت 59

وَتِلْكَ الْقُرَىٰ أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ بستیاں جنہیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کردیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی (١)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب (عليہ السلام) اور حضرت لوط (عليہ السلام) وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انہیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انہیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہو جاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی اور تم اپنے کفر وعناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہو چکا ہے۔