وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا
ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے (١) اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔
1- طَائِرٌ کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُقٌ کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل لئے ہیں۔ فِي عُنُقِهِ کا مطلب ہے اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہو گا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بد بختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہو گی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔