وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو (١) ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو (٢) اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے (٣) البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے (٤) پس جب تم امن کی حالت میں ہوجاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے جسے طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی پر (٥) یہ پورے دس ہوگئے یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔
1-یعنی حج یا عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اس کا پورا کرنا ضروری ہے، چاہے نفلی حج وعمرہ ہو۔ (ایسرالتفاسیر) 2- اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور (ہدی)۔ ایک بکری اور گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو، وہیں ذبح کرکے سرمنڈالو اور حلال ہوجاؤ، جیسے نبی (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کی تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (ﷺ) نے ہجری والے عمرے کی قضا ہجری میں دی۔ 3- اس کا عطف ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ﴾ پر ہے اور اس کا تعلق حالت امن سے ہے، یعنی امن کی حالت میں اس وقت تک سر نہ منڈاؤ (احرام کھول کر حلال نہ ہو) جب تک تمام مناسک حج پورے نہ کرلو۔ 4- یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے۔ حدیث کی رو سے ایسا شخص مسکینوں کو کھانا کھلا دے، یا ایک بکری ذبح کردے، یا تین دن کے روزے رکھے۔ روزوں کے علاوہ پہلے دو فدیوں کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ کھانا اور خون مکہ میں ہی دے، بعض کہتے ہیں کہ روزوں کی طرح اس کے لئے بھی کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔ امام شوکانی نے اسی رائے کی تائید کی ہے (فتح القدیر) 5- حج کی تین قسمیں ہیں ; "إِفْرَادٌ"،۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا۔ "قِرَانٌ"، حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرکے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں ہے۔ "حَجُّ تَمَتُّعٍ"۔ اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کی نیت ہوتی ہے، لیکن پہلے صرف عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے اور عمرہ کرکے پھر احرام کھول دیا جاتا ہے اور پھر ذوالحجہ کو حج کے لئے مکہ سے ہی دوبارہ احرام باندھا جاتا ہے، تمتع کے معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں۔ گویا درمیان میں احرام کھول کر فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ حج قران اور حج تمتع دونوں میں ایک ہدی (یعنی ایک بکری یا پھر اونٹ یا گائے کے ساتویں حصے) کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس آیت میں اسی حج تمتع کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ متمتع حسب طاقت ذو الحجہ کو ایک جانور کی قربانی دے، اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے ایام حج میں اور سات روزے گھر جاکر رکھے۔ ایام حج، جن میں روزے رکھنے ہیں، ذی الحجہ (یوم عرفات) سے پہلے، یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (فتح القدیر) 6- یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدی یا روزے صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)