وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، (١) اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (٢) کہ تم شکر گزاری کرو (٣)۔
1- ”شَیْئًا“ نکرہ ہے، تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بد بختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ 2- تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کر سکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ 3- یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالی نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان اعزا وجوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالی راضی ہو جائے۔ ان سے اللہ کی عبادت واطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے۔ حدیث میں آتا ہے ’’میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا زیادہ قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے‘ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں‘ تو میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع) اس حدیث کا بعض لوگ غلط مفہوم لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں، حالانکہ حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت وعبادت اللہ کے لئے خالص کر لیتا ہے تو اسکا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے، اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جسکی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اسکی طرف جاتا ہے تو وہ وہی چیز ہوتی ہے جسکو شریعت نے روا رکھا ہے۔ وہ انکو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔