سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا (١) میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے (٢) میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انہیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ انہیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا ”نظر لگ جانا حق ہے“ جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً [الْعَيْنُ حَقٌّ]، ”نظر کا لگ جانا حق ہے“۔ ( صحيح بخاری، كتاب الطب، باب العين حق- وصحيح مسلم ، كتا السلام، باب الطب والمرض والرقى ) اور آپ (ﷺ) نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بَارَكَ الله ُکہو۔ ( موطأ إمام مالك، باب الوضوء من العين- تعليقات مشكاة ألباني - نمبر1286) جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو (حوالہ مذکورہ) اسی طرح ’’مَا شَاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ‘‘ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے (سورہ کہف:39) ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے۔ ( جامع ترمذي أبواب الطب، باب ما جاء في الرقية بالمعوذتين) 2- یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالٰی کی تقدیر وقضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔