وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر لائے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔
1- کہتے ہیں کہ ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے یوسف (عليہ السلام) کی قمیص خون میں لت پت کر لی اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف (عليہ السلام) کو کھاتا تو قمیص کو بھی پھٹنا تھا، قمیص ثابت کی ثابت ہی تھی جس کو دیکھ کر، علاوہ ازیں حضرت یوسف (عليہ السلام) کے خواب اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت یعقوب (عليہ السلام) نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جو تم بیان کر رہے ہو، بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے، تاہم چونکہ، جو ہونا تھا، ہوچکا تھا، حضرت یعقوب اس کی تفصیل سے بےخبر تھے، اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ 2- منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) ا پر تہمت لگائی تو انہوں نے بھی نبی (ﷺ) کے افہام وارشاد کے جواب میں فرمایا تھا۔ وَاللهِ لا أَجِدُ لِي وَلا لَكُمْ مَثَلا إِلا أَبَا يُوسُفَ ﴿فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ﴾ (صحيح بخاری ، تفسير سورة يوسف) ”اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف (عليہ السلام) کے باپ یعقوب (عليہ السلام) کو سابقہ پیش آیا تھا اور انہوں نے فَصَبْرٌ جَمِيلٌ کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا“، یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔