قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ (١) اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو (٢)۔
1- جُبٌّ کنویں کو اور غَيَابَةٌ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔ 2- یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آ جائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کر لو۔