سورة یوسف - آیت 3

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ہم آپ کے سامنے بہترین بیان (١) پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں تھے (٢

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* قصص، یہ مصدر ہے، اس کے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا، مطلب دلچسپ واقعہ ہے۔ قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا اخبار ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد و عناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوادث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص(بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ ** قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالٰی آپ کو بےخبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ(ﷺ) اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کر دیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالٰی ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔