وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے (١) اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٢) اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٣) اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے (٤)۔
1-کیوں کہ یہود کی مخالفت تو حسد وعناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ گویا اثرپذیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ 2- کیوں کہ آپ (ﷺ) وحی الٰہی کے پابند ہیں، جب تک آپ (ﷺ) کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیوں کر اختیار کرسکتے ہیں۔ 3- یہود کا قبلہ صخرۂ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ 4- یہ وعید پہلے بھی گزرچکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن وحدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا، ظلم اور گمراہی ہے۔