قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے (١) اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں (٢) تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہو (٣) میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے (٤)۔
1- حضرت نوح (عليہ السلام) نے قرابت نسبی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنا بیٹا قرار دیا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے ایمان کی بنیاد پر قرابت دین کے اعتبار سے اس بات کی نفی فرمائی کہ وہ تیرے گھرانے سے ہے۔ اس لئے کہ ایک نبی کا اصل گھرانہ تو وہی ہے جو اس پر ایمان لائے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور اگر کوئی ایمان نہ لائے تو چاہے وہ نبی کا باپ ہو، بیٹا ہو یا بیوی، وہ نبی کے گھرانے کا فرد نہیں۔ 2- یہ اللہ تعالٰی نے اس کی علت بیان فرما دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایمان اور عمل صالح نہیں ہوگا، اسے اللہ کے عذاب سے اللہ کا پیغمبر بھی بچانے پر قادر نہیں۔ آج کل لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں سے وابستگی کو ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور عمل صالح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ جب عمل صالح کے بغیر نبی سے نسبی قرابت بھی کام نہیں آتی، تو یہ وابستگیاں کیا کام آ سکتی ہیں۔ 3- اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا، اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی اسے عطا فرما دیتا ہے۔ اگر حضرت نوح (عليہ السلام) کو پہلے سے علم ہوتا کہ ان کی درخواست قبول نہیں ہوگی تو یقینا وہ اس سے پرہیز فرماتے۔ 4- یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت نوح (عليہ السلام) کو نصیحت ہے، جس کا مقصد ان کو اس مقام بلند پر فائز کرنا ہے جو علمائے عاملین کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہے۔