سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا ؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ف ١ وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔
1-جب آنحضرت (ﷺ) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ، مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، درآں حالیکہ آپ (ﷺ) کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے جو قبلہء ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیا، جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچا دیا، حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے، اس طرح کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے، اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا، اس طرف پھر جانا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق، مغرب ساری جہتیں اسی کی ہیں، اس لئے جہتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہر جہت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس جہت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی۔