خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے (١)
*یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ کفرومعصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے، ان کے کان حق بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح لاسکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے معرفت کردگار حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف شفاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہی وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (المطففين: 14) یعنی ”ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔“ (ترمذی، تفسیر سورۂ مطففین) اسی کیفیت کو قرآن نے ”ختم“ (مہر لگ جانے) سے تعبیر فرمایا ہے، جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔