فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے (١) وہ بھی فرعوں سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے (٢) اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہوجاتا تھا (٣)۔
1- قَوْمِهِ کے ”ہ“ ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی صورت میں انہیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ ﴿ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ﴾ سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لائے۔ انہیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔ 2- قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انہیں اس وجہ سے مزید تکالیف کا اندیشہ تھا۔ 3- اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔