وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
اور جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں اس میں کچھ تھوڑا سا اگر ہم آپ کو دکھلا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں سو ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے۔ پھر اللہ ان کے سب افعال پر گواہ ہے (١)۔
1- اس آیت میں اللہ تعالٰی فرما رہا ہے ہم ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کر رہے ہیں اگر انہوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی عذاب الٰہی آسکتا ہے، جس طرح پچھلی قوموں پر آیا، ان میں سے بعض اگر ہم آپ کی زندگی میں بھیج دیں تو یہ بھی ممکن ہے، جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ لیکن اگر آپ اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لئے گئے، تب بھی کوئی بات نہیں، ان کافروں کو بالآخر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و احوال کی ہمیں اطلاع ہے، وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے، قیامت کے وقوع کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دی جائے۔