وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے (١) پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرو (٢) پھر ہم ان کی آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے (٣) اور ان کے وہ شرکا کہیں گے کہ کیا تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔؟
1- جَمِيعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالٰی جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا﴾ (الکہف:47) ”ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے“۔ 2- ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے گا جیسے فرمایا ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یس:59) ﴿يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ﴾ (الروم:43) «اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ' یعنی دو گروہوں میں۔ أَيْ: يَصِيرُونَ صِدْعَيْنِ (ابن کثیر) 3- یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کر دیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔