لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں (١) جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے (٢) جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں (٣) ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں (٤)۔
1- سورت کے آخر میں مسلمانوں پر نبی کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا گیا، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ (ﷺ) کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہاری جنس سے یعنی جنس بشریت سے ہیں (وہ نور یا اور کچھ نہیں) جیسا کہ فساد عقیدہ کے شکار لوگ عوام کو اس قسم کے گورکھ دھندے میں پھنساتے ہیں۔ 2- عَنَتٌ ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو، اس میں دنیاوی مشقتیں اور آخروی عذاب دونوں آجاتے ہیں، اس پیغمبر پر، تمہاری ہر قسم کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ اسی لئے آپ (ﷺ) نے فرما: ”میں آسان دین حنیفی دے کر بھیجا گیا ہوں“۔ (مسند احمد۔ جلد 5، ص 266، جلد 6 ص 233) ایک اور حدیث میں فرمایا: [إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ]، ”بیشک یہ دین آسان ہے“۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان) 3- تمہاری ہدایت اور تمہاری دینوی آخروی کے فائدے کے خواہشمند ہیں اور تمہارا جہنم میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ اسی لئے آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو“۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب نمبر 26 الانتهاء من المعاصی) 4- یہ آپ کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہ ساری خوبیاں آپ کے اعلٰی اخلاق اور کریمانہ صفات کی مظہر ہیں۔ یقینا آپ (ﷺ) صاحب خلق عظیم ہیں۔