يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں (١) اور ان کے لئے تمہارے اندر سختی ہونی چاہیے (٢) اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
1- اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کہ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ اور الأَقْرَبُ فَالأَقْرَبُ کے مطابق کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پہلے جزیرہ، عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالٰی نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضر موت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے، تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور 9 ہجری میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ، عرب سے قریب ہے اسی کے مطابق آپ (ﷺ) کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا، اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ 2- یعنی کافروں کے لئے، مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے جیسا کہ ﴿اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ (الفتح: 29) صحابہ کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ﴿اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ﴾ ( المائدہ: 54) اہل ایمان کی صفت ہے۔