قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں (١)۔
1- مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود ونصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام نہ قبول کریں) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود ونصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کر دیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح علیہما السلام کی ابنیت (یعنی بیٹا ہونے کا) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔