إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
1- ان آیات میں اہل ایمان کی 4 صفات بیان کی گئی ہیں; 1۔ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ 2۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ 3۔ تلاوت قرآن سے ان کے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) 4۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض وگریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کارفرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لیے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین واعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد واعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لیے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ اور مغفرت ورحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے ۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرما لے)۔ جنگ بدر کا پس منظر: جنگ بدر، جو 2 ہجری میں ہوئی، کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی۔ نیز بے سروسامانی کی وجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصراً اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابوسفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا، چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سا مال واسباب ہجرت کی وجہ سے مکہ رہ گیا تھا، یا کافروں نے چھین لیا تھا، نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا، ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (ﷺ) نے اس تجارتی قافلے پر حملے کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابوسفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے، مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابوجہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (ﷺ) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔