وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلادی کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا (١) بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے (٢)۔
1- ”تَأَذَّنَ“ إِيذَانٌ بمعنی إِعْلامٍ (خبر دینا، جتلا دینا) سے باب تفعل ہے۔ یعنی وہ وقت بھی یاد کرو! جب آپ کے رب نے ان یہودیوں کو اچھی طرح باخبر کر دیا یا جتلا دیا تھا، ”لَيَبْعَثَنَّ“ میں لام تاکید ہے جو قسم کے معنی کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا رکھیں گے، چنانچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اسی ذلت ومسکنت اور غلامی ومحکومی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کے خلاف نہیں ہے اس لیے کہ وہ قرآن ہی کے بیان کردہ استثنا وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ کی مظہر ہے جو قرآنی حقیقت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی مؤید ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے آل عمران: 112 کا حاشیہ) 2- یعنی اگر ان میں سے کوئی توبہ کرکے مسلمان ہو جائے گا تو وہ اس ذلت وسوء عذاب سے بچ جائے گا۔