أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں (١)۔
1- یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر بھی قفل لگ جاتے ہیں، پھر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے۔ دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز کے لیے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں ۔ پھر انذار اور وعظ ونصیحت ان کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں ۔ آیت میں ہدایت تَبْيِينٌ (وضاحت) کے معنی میں ہے، اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ للَّذِينَ﴾ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔