سورة الاعراف - آیت 40

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے (١) اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے (٢) اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے۔ یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیسا کہ مسند احمد، جلد 2، صفحہ 364، 365 کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ 2- یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گذرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا۔ اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک اور تنگ ہونے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر نے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کو غایت درجے واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے، ایسی چیز کے ساتھ مشروط کر دینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا، تعلیق بالمحال ہے۔