سورة الاعراف - آیت 12

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

حق تعالیٰ نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے (١) جب کہ میں تم کو حکم دے چکا ہوں کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا (٢)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

عذر گناہ بدتر از گناہ «أَلَّا تَسْجُدَ» «لَا» بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کے لئے ہے ۔ جیسے کہ شاعر کے قول «مَا اِنْ رَاَیْتُ وَلَا سَمِعْتُ بِمِثْلِہِ» میں «ما» نافیہ پر «اِن» نفی کے لیے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے «لَمْ یَکُنْ مِنَ السَّاجِدِینَ» ہے ۔ پھر «مَا مَنَعَکَ أَلَّا تَسْجُدَ» ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں «مَنَعَکَ» ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقدیر عبارت یوں ہوئی «مَا اَحْرَجَکَ وَ اَلْزَمَکَ وَ اضْطَرَّکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ» یعنی تجھے کس چیز نے بےبس ، محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے ؟ وغیرہ ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی ، سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کی مصداق ہے ۔ گویا وہ اطاعت سے اس لیے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جا سکتا ۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر اپنے بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا ، یہ مٹی سے ۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کو اللہ عز و جل نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی روح پھونکی ہے ۔ پس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا ، اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا ۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی ۔ مٹی کے اوصاف ہیں : نرم ہونا ، حامل مشقت ہونا ، دوسروں کا بوجھ سہارنا ، چیزوں کو اگانا ، پرورش کرنا ، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے : جلدی کرنا ، جلا دینا ، بےچینی پھیلانا ، پھونک دینا ۔ اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کی معذرت کی ، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا ، اپنے گناہ کا اقرار کیا ، رب سے معافی چاہی ، بخشش کے طالب ہوئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2996) [ مسلم ] ایک اور روایت میں ہے : { فرشتے نور عرش سے ، جنات آگ سے ۔ } ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ { حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:7813/8:ضعیف) امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ابلیس نے یہ قیاس کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ یاد رکھو ! سورج چاند کی پرستش اسی قیاس کی بدولت شروع ہوئی ہے ۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے ۔