سورة الانعام - آیت 54

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے (١) تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے (٢) کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے (٣)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بے مایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا «وَمَا نَرٰیکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ» (11 ۔ ھود:27) یعنی ’ ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بیوقوف لوگوں نے ہی کی ہے ‘ ۔ { شاہ روم ہرقل نے جب ابوسفیان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے ، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مذاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں ؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت «لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ» (46 ۔ الاحقاف:11) ’ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَیٰ الْفَرِیقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِیًّا» ۱؎ (19 ۔ مریم:73) ’ جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے ؟ ‘ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت «وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْیًا» ۱؎ (19 ۔ مریم:74) یعنی ’ ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ‘ ۔ چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ» ۱؎ (29۔العنکبوت:69) ’ جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں { ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہٰ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابوطالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کر لیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ۔ ابوطالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے ؟ اللہ عزوجل نے «وَأَنْذِرْ» سے «بِالشَّاکِرِینَ» تک آیتیں اتاریں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13264/11:مرسل و ضعیف) یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال ، عمار ، سالم صبیح ، ابن مسعود ، مقداد ، مسعود ، واقد ، عمرو ذوالشمالین ، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین ، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ» (6۔الأنعام:53) بھی نازل ہوئی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت «وَاِذَا جَاءَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبٰکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْءًا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (6۔الأنعام:54) نازل ہوئی ۔ آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ’ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رحم و کرم واجب کر لیا ہے ‘ ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں” دنیا ساری جہالت ہے “ ۔ غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کرلے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کرلے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضاء و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3194) ابن مردویہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ ” میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں } ۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں ، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لیے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے } ۔ یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں ، آیت «وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ» ۱؎ (7 ۔ الأعراف:156) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا { جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں } ۔ پھر فرمایا : { جانتے ہو بندے جب یہ کر لیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7373) مسند احمد میں یہ حدیث بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے ۔